بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر بریگيڈیئر جنرل الحاج اسماعیل قاآنی نے ٹی وی پروگرام "ہم عہد" میں شرکت کی اور کہا:
حزب اللہ عالمی دباؤ کے باوجود ثابت قدم رہی
ایسی حالت میں کہ جب حزب اللہ کے اہم کمانڈر یکے بعد دیگرے شہید ہو گئے تھے اور پیجرز کے واقعے نے ملت تشیع اور مزاحمت کو شدید دھچکا پہنچایا تھا، صہیونی ریاست نے حزب اللہ کے خلاف اپنی تاریخ کی شدید ترین جنگ کا آغاز کیا۔
یہ غیر منصفانہ اور غیر مساوی جنگ صرف اسرائیلی فوج تک محدود نہیں تھی۔ اس کے پیچھے امریکہ، نیٹو اور یہاں تک کہ کچھ ریاستوں کا بھی ہاتھ تھا جو بظاہر اسلامی ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں، اور دنیا کے تمام فوجی آلات صہیونی ریاست کی تحویل میں دیئے گئے۔
66 روزہ جنگ کے دوران، بے مثال دباؤ کے باوجود، حزب اللہ ثابت قدم رہی اور مزاحمت کی تاریخ میں ایک منفرد کامیابی حاصل کی۔ حملوں کے عروج پر بھی دشمن کی بمباریوں کی شدت پچھلی جنگوں اور بھاری کاروائیوں کے مقابلے میں، زیادہ شدید تھی لیکن مزاحمت برقرار رہی۔
اس جنگ میں دشمن کی بمباری اور گولہ باری بلا وقفہ جاری رہی
2006 کی جنگ میں صہیونی ریاست نے توپ خانے، مارٹروں، طیاروں اور جدید ڈرونز کا استعمال کرتے ہوئے حزب اللہ کی افواج پر بے مثال دباؤ ڈالا۔
عام جنگوں کے برعکس جہاں افواج کی نقل و حرکت کے وقت دشمن کی فائرنگ بند ہو جاتی تھی، اس جنگ میں دشمن کی فائرنگ کبھی نہیں رکی اور ڈرونز نے افواج کی ہر نقل و حرکت کو انتہائی درستگی اور جدید ہتھیاروں سے نشانہ بنایا۔
دشمن کے ردعمل کی رفتار اتنی تیز تھی کہ مارٹر گولہ داغنے اور لگنے میں ایک سیکنڈ کے کچھ حصہ لگتا تھا۔ یہ آپریشن، جنوبی لبنان میں شہریوں کے خلاف بڑے پیمانے پر خطرات اور جرائم کے باوجود، جدید جنگ میں ایک نادر تجربہ تھا۔
صہیونی فوج کے خلاف حزب اللہ کی مزاحمت بے مثال تھی
اس جنگ میں فائرنگ کی شدت اس قدر شدید تھی کہ اسے دنیا کی تمام جنگوں میں عدیم المثال فائرنگ (یعنی بمباری، گولہ باری) سمجھا جاتا ہے۔ جس چیز نے حزب اللہ کی افواج کو زندہ رکھا وہ کاروائیوں پر درست ارتکاز اور صحیح منصوبہ بندی تھی۔
ہر علاقے میں الگ الگ یونٹس اور الگ ہیڈ کوارٹر تھے، اور یہاں تک کہ چھوٹی اکائیوں کو "بقعہ" کہا جاتا تھا، مشن بالکل واضح تھا، محفوظ مالیاتی سپلائی لائن، ضروری سہولیات، مکمل طور پر ہدایت شدہ اور خودکفیل نفری؛ یوں وہ مرکزی کمان سے براہ راست احکامات وصول کرنے کی ضرورت کے بغیر کارروائیاں انجام ددیتے تھے۔
آپریشن کی شدت کے ساتھ ساتھ ایسے حالات میں سہولیات کی فراہمی بہت مشکل تھی لیکن اس کے با وجود حزب اللہ کی افواج 66 دنوں تک دنیا بھر سے کمک وصول کرنے والی صہیونی فوج کا مقابلہ کرنے میں کامیاب رہی۔
دنیا کی کوئی طاقت اور فوج اس قدر سہولتوں کی حامل اور اس قدر جرائم کا ارتکاب کرنے والے دشمن کے خلاف مزاحمت نہیں کر سکتی۔ یہاں حزب اللہ کی عظمت اور مزاحمت واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔
صہیونی ریاست نے جنگ بندی کی درخواست کی
حزب اللہ کی افواج نے نفسیاتی اور فوجی دباؤ کے تحت مزاحمت کی؛ بہت سے ذرائع ابلاغ اپنی رپورٹس میں شاذ و نادر ہی حزب اللہ کی جنگ کی حقیقت بیان کی جاتی ہے۔ صہیونی ریاست نے جنگ بندی کی درخواست کی، جبکہ اگر وہ جنگ جاری رکھنے اور حزب اللہ کی منظم مزاحمت کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوتی، تو یقینا جنگ جاری رکھتی۔ صورت حال یہ تھی کہ حزب اللہ نہ صرف دشمن کی زمینی کارروائیوں کا موثر مقابلہ کر رہی تھی بلکہ اس کی زمینی پیش قدمی بھی بہت مؤثر تھی؛ چنانچہ دشمن کے پاس جنگ بندی کی درخواست کے بغیر کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔
جنگ کے پہلے دن سے، فوجی اقدامات کے علاوہ، صہیونی ریاست نے مجاہدین کے حوصلے پست کرنے کے لئے حزب اللہ کی افواج اور عوام کے خلاف شدید نفسیاتی کارروائیاں جاری رکھیں۔ گھروں پر بمباری اور شہریوں کو نقصان پہنچانا اسی نفسیاتی دباؤ کا حصہ تھا۔
تاہم، حزب اللہ کی افواج نے، ایمان، روحانیت، اور شہید سید حسن نصر اللہ کے بنائے ہوئے بنیادی ڈھانچے پر بھروسہ کرتے ہوئے، میدان جنگ میں، سخت ترین دباؤ کے باوجود مزاحمت کی اور ثابت قدم رہیں۔
حزب اللہ کی مزاحمت زمانے کی شدیدترین لڑائی نمایاں ہوئی
جنگ کے پہلے ہفتے سے کوئی بھی عسکری ماہر سمجھ سکتا تھا کہ دشمن کے شدید دباؤ کے سامنے حزب اللہ روز بروز مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔
دشمن کے حساس ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے لئے ڈرونز اور میزائلوں کے استعمال شاذ و نادر ہی رپورٹوں میں بیان ہؤا ہے۔ غاصب ریاست کی جانب سے جنگ بندی کی درخواست سے صرف دو دن پہلے، حزب اللہ نے دشمن پر 350 سے زائد چھوٹے اور بڑے میزائلوں سے حملے کئے۔
ان کارروائیوں میں فوجیوں کے میس ہال پر حملے، حیفا پر حملے اور یہاں تک کہ نیتن یاہو کے گھر پر حملے شامل تھے اور حزب اللہ کی فورسز بے مثال فوجی اور نفسیاتی طاقت کا مظاہرہ کر رہی تھیں۔
یہ طاقت اور حالات پر کنٹرول روحانی اور نظریاتی بنیادوں، قربانی کے جذبے اور پیچیدہ منصوبہ بندی میں پیوست تھا۔ دباؤ کے عروج پر، حزب اللہ نے ثابت کر دیا کہ اس زمانے کی مشکل ترین جنگوں میں بیک وقت کس طرح مزاحمت اور طاقت کا مظاہرہ کیا جا سکتا ہے۔ 66 دن کی جنگ جو ہمارے دور کی سب سے مشکل جنگوں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے۔
امریکہ اور عالمی برادری اپنے وعدوں پر عمل کرنے میں ناکام رہی
اگر صہیونی ریاست فوجی کارروائیوں کے ذریعے حزب اللہ کو غیر مسلح یا تباہ کرنے میں کامیاب ہوتی تو یقیناً وہ جنگ کو جاری رکھتی اور نہ روکتی۔ لیکن غاصب ریاست نے سانس لینے کے لئے جنگ بندی کی درخواست کی۔
اعلان کردہ وعدوں اور بعض فریقوں کے دستخطوں کے باوجود امریکہ کی حمایت اور عالمی خاموشی، معاہدوں پر عمل درآمد نہ ہونے اور دوسرے فریق کی طرف سے، وعدوں کی خلاف ورزی کا سبب بنی۔
لبنان کے داخلی مسائل، جو خود لبنانیوں کے لئے مختص ہیں، نے بھی علاقائی عمل کو پیچیدگیوں سے دچار کیا اور اس پر الگ الگ اثرات مرتب کئے۔
جنگ کے بعد سلامتی کونسل میں کوئی نئی قرارداد منظور نہیں ہوئی اور صرف 2006 کی 33 روزہ جنگ کے بعد منظور ہونے والی قرارداد نمبر 1701 ایجنڈے پر تھی اور سب نے اس پر عمل درآمد کی بات کی۔
حزب اللہ نے اپنی مردانگی اور تزویراتی صبر کے ساتھ حالات کو تناؤ کی طرف بڑھنے سے روکا۔ ایک ایسا صبر جس کے ساتھ ہوشیاری اور حکمت بھی ہے جو بلاشبہ نتیجہ خیز ہو گا۔
اگرچہ غاصب ریاست کے بعض اہلکاروں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے تنازع کے خاتمے سے قبل حزب اللہ کو تباہ کر دیا ہے، لیکن میدان کے حقائق نے کچھ اور ہی دکھایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ